حسین لڑکوں کے یار دکھ ہیں
اداس آنکھوں کے پار دکھ ہیں
میں آج پھندے سے کہہ رہا ہوں
یہاں تو دنیاوی پیار دکھ ہیں
کسی نے ہنس کر گزار ڈالی
کسی کے اب بھی ہزار دکھ ہیں
مجھے اداسی بُلا رہی ہے
مرے تو باقی اُدھار دکھ ہیں
مجھے بھی دیکھو اداس لوگو
مرے بھی کچھ ناگوار دکھ ہیں
کسی کی حسرت کسی کی چاہت
کسی پہ خود ہی سوار دکھ ہیں
عطا اداسی میں مر رہا ہوں
عطا مرے بے شمار دکھ ہیں

0
60