تُو سلطان ہر اِک جہاں گیر کا ہے، تو آقا و مولا ہر اِک پیر کا ہے
تُو رہبر تُو ہادی ہر اِک میر کا ہے، یہ رتبہ تِرا کتنی توقیر کا ہے
تمہاری تو چلتی ہیں چودہ طبق مِیں، خدا نے دی ہر خلق تیرے نَسق مِیں
لکھو پیرِ حق! عشقِ حق میرے حق مِیں، تِرے ہاتھ مِیں خامہ تقدیر کا ہے
کَرو چشم و دل کا وضو اہلِ ایماں، چَلو پھر سبھی جانبِ شہرِ جیلاں
کہ عرس آج غوثِ زمن نورِ یزداں، سفیرِ حسنؑ اہلِ تطہیر کا ہے
جُھکا کر یہ سر بَر درِ غوثِ اعظمؓ، جو اُن کو پُکارا ہے با دیدہِ نم
اِسے شرک مت جان او انسانِ بودم، یہ رشتہ تو تعظیم و توقیر کا ہے
یہی مِہْر راہِ بَہِشْتِ بَریں ہے، یہی باخدا مجھ کو روشن نَگیں ہے
یہ اِک نقش منقوش جو بَر جَبیں ہے، مِرے شاہِ میراں کی تصویر کا ہے
اے غوثِ معظمؓ ولایت میں اُتَّم، مثیلِ مسیح و سُلیمانؑ و آدمؑ
ہو شاہدؔ پہ فضل و کرم اب ہمہ دم، تمہیں واسطہ پاک شبیرؑ کا ہے

0
23