خواہشِ دل کو دبا رکھا ہے
غم کو سینے میں چھپا رکھا ہے
لاج رکھنا مری اے حافظِ کل
طوفاں میں لا کے دیا رکھا ہے
تم جسے کہتے تھے مونس ہجراں
اس نے غیروں سے نبھا رکھا ہے
خود تراشا ہے صنم کو میں نے
خود ہی اب سر پہ چڑھا رکھا ہے
ہم جو مشہور بڑے من موجی
کب سے من اپنا مٹا رکھا ہے
راگ رو کر کیوں سناتے ہو اب
رونے کو اب کیا بچا رکھا ہے
آشنائی جاں لے بھی سکتی ہے
خود کو بھی خود سے چھپا رکھا ہے
جاؤ جا کر میاں کوئی کام کرو
اس محبت میں بھلا کیا رکھا ہے
آو ساغر کو تسلی دیں جا کر
حال کیا اپنا بنا رکھا ہے

107