اب تو اپنوں سے بھی ملتے ہوئے ڈر لگتا ہے |
زندگی جیسے کٹھن کوئی سفر لگتا ہے |
ہم نے دشواریٔ حالات کو دیکھا ہے مگر |
آج انجانا ہمیں اپنا ہی گھر لگتا ہے |
ہم کو دشمن نے ہمیشہ ہی غلط سمجھا ہے |
اس کو ہر بات میں سازش کا اثر لگتا ہے |
ہم تو پیغام محبّت کا لئے آئے ہیں |
ان کو اخلاص تکلّف ہی مگر لگتا ہے |
ہم کسی مکر میں سازش میں نہیں ہوتے شریک |
سادہ لوحوں کا مگر دل پہ اثر لگتا ہے |
اک نئے دور کے آغاز کا موسم ہو گا |
بدلا بدلا سا ذرا شام و سحر لگتا ہے |
طارق اب جلد کوئی جلوہ دکھائے گا خدا |
سامنے آنکھوں کے اللّٰہ کا گھر لگتا ہے |
معلومات