اب تو اپنوں سے بھی ملتے ہوئے ڈر لگتا ہے
زندگی جیسے کٹھن کوئی سفر لگتا ہے
ہم نے دشواریٔ حالات کو دیکھا ہے مگر
آج انجانا ہمیں اپنا ہی گھر لگتا ہے
ہم کو دشمن نے ہمیشہ ہی غلط سمجھا ہے
اس کو ہر بات میں سازش کا اثر لگتا ہے
ہم تو پیغام محبّت کا لئے آئے ہیں
ان کو اخلاص تکلّف ہی مگر لگتا ہے
ہم کسی مکر میں سازش میں نہیں ہوتے شریک
سادہ لوحوں کا مگر دل پہ اثر لگتا ہے
اک نئے دور کے آغاز کا موسم ہو گا
بدلا بدلا سا ذرا شام و سحر لگتا ہے
طارق اب جلد کوئی جلوہ دکھائے گا خدا
سامنے آنکھوں کے اللّٰہ کا گھر لگتا ہے

0
1
123
پسندیدگی کا بہت شکریہ ارشد صاحب

0