نجانے کون سی وہ احتیاج رکھتے تھے
پکڑ کے کاسہ مگر سر پہ تاج رکھتے تھے
وہ تنگ دست تھے پر شاہ وہ دلوں کے تھے
مسافروں کے لیے بھی اناج رکھتے تھے
پرانے دور کے دشمن فقط کہانی ہیں
جو دشمنی میں بھی دل میں خراج رکھتے تھے
کوئی بتائے کہاں جا کے بس گۓ وہ لوگ
جو اپنے درد کا گھر میں علاج رکھتے تھے
غموں نے اپنا کلیجہ چبا لیا شاہدؔ
ہمیں جو غم ملے ہِندا مزاج رکھتے تھے

0
41