گلوں کو مسکراہٹ نے تِری کھلنا سکھایا ہے
گلابوں کی مہک کو جسم نے جینا سکھایا ہے
سبھی کو ہی بتاتا پھرتا تھا یہ اپنی گہرائی
سمندر کو تِری آنکھوں نے ہی ٹِکنا سکھایا ہے
تھی تپشِ خور مژگاں میں جبیں نے مہ کیا روشن
سو زلف و گال نے دن رات کو ملنا سکھایا ہے
شبِ دیجور پر بھی سایا ہے بے قابو زلفوں کا
تِری زلفوں نے آوارہ ہو کےپھرنا سکھایا ہے
ابھی اعجازؔ لکھتا ہے ترانے بس محبت کے
میں بھی حیران ہوں تُو نے اسے کتنا سکھایا ہے

0
78