| گلوں کو مسکراہٹ نے تِری کھلنا سکھایا ہے |
| گلابوں کی مہک کو جسم نے جینا سکھایا ہے |
| سبھی کو ہی بتاتا پھرتا تھا یہ اپنی گہرائی |
| سمندر کو تِری آنکھوں نے ہی ٹِکنا سکھایا ہے |
| تھی تپشِ خور مژگاں میں جبیں نے مہ کیا روشن |
| سو زلف و گال نے دن رات کو ملنا سکھایا ہے |
| شبِ دیجور پر بھی سایا ہے بے قابو زلفوں کا |
| تِری زلفوں نے آوارہ ہو کےپھرنا سکھایا ہے |
| ابھی اعجازؔ لکھتا ہے ترانے بس محبت کے |
| میں بھی حیران ہوں تُو نے اسے کتنا سکھایا ہے |
معلومات