فریب خوردہ ہو تم یا کہ حق شناس نہیں
بنے ہو دشمنِ جاں ، دوستی کا پاس نہیں
کسی نے دل میں عداوت جو ڈال دی ہو گی
گلہ ہے ہم سے ، تمہارے بنا ، اداس نہیں
جو نور اُترا فلک سےہمارے سینے میں
ہمارے چہرے پہ کیا اس کا انعکاس نہیں
جو دکھ میں روئے ہو تم ساتھ ہم تمہارے تھے
تمہیں ہمارا تبسّم بھی اب تو راس نہیں
تمہارے دُکھ سے ہمارے دلوں کو دکھ پہنچے
ہمارا تم سے تعلّق کہو کہ خاص نہیں
تمہارے دکھ میں ہوئے مبتلا یہی غم ہے
ہماری اور تو کوئی بھی وجہِ یاس نہیں
تم اس مقام پہ پہنچے ہو کر کے بد ظنّی
ہمیں تو لوٹنے کی اب تمہارے آس نہیں
نہ سن سکو ، نہ ہی بولو نہ دیکھ پاؤ تم
تمہارے کام کے باقی رہے حواس نہیں
ہے اُس کے ساتھ خدا اور ہم ہیں ساتھ اس کے
اسی لئے تو ہمیں خوف یا ہراس نہیں
خدا نے ہم کو ہدایت پہ کر دیا قائم
ہمیں یقین ہے طارق ، فقط ، قیاس نہیں

0
56