تَوسنِ فکر پہ مہمیزِ سخن آیا نہیں |
تُو ہے وہ چاند کبھی جس پہ گہن آیا نہیں |
آندھیاں آڑ بنیں راستے دیوار ہوئے |
عزم ایسا کہ کبھی رنج و محن آیا نہیں |
دولت و حشمت و ثروت سے رہا بالا مقام |
تیرے رستوں میں کبھی لعلِ یمن آیا نہیں |
بحرِ اقلام سے قرآن کے چشمے پھوٹے |
خامہ فرسائی میں خوشآمدی پن آیا نہیں |
کبھی خاطر میں نہ لائے وہ حریفوں کے جلال |
ڈرنے جھکنے کا دبک جانے کا فن آیا نہیں |
پورے قد سے کھڑے رہتے رہے ہر جبر میں وہ |
مرحلہ کوئی کبھی صبر شکن آیا نہیں |
عمر بھر زیست غمِ ہجر میں سرگرداں رہی |
تیرے پائے کا مگر شیخِ زَمَن آیا نہیں |
معلومات