| تیری زلفوں کو کبھی ہم نے سنوارا ہوتا |
| ناز کرتے جو مقدر یہ ہمارا ہوتا |
| کوئی میسر ہی نہیں خود سا وگرنہ ہم تو |
| چاہتے تھے کہ کوئی دوست ہمارا ہوتا |
| ڈوبتے شمس کی کرنوں میں برابر میرے |
| ہوتے تم اور کسی دریا کا کنارا ہوتا |
| جس قدر چاہنے والے ہیں تمھارے جاناں |
| میں نہ ہوتا تو کوئی اور تمھارا ہوتا |
| جانے والے نے بس اتنا ہی کہا تھا مجھ سے |
| ساتھ اب تیرے نہیں اور گزارا ہوتا |
| دھوپ ہوتے ہوئے بھی ابر برسنے لگتا |
| چھت پے جانا جو کبھی تجھ کو گوارا توتا |
معلومات