تیری زلفوں کو کبھی ہم نے سنوارا ہوتا
ناز کرتے جو مقدر یہ ہمارا ہوتا
کوئی میسر ہی نہیں خود سا وگرنہ ہم تو
چاہتے تھے کہ کوئی دوست ہمارا ہوتا
ڈوبتے شمس کی کرنوں میں برابر میرے
ہوتے تم اور کسی دریا کا کنارا ہوتا
جس قدر چاہنے والے ہیں تمھارے جاناں
میں نہ ہوتا تو کوئی اور تمھارا ہوتا
جانے والے نے بس اتنا ہی کہا تھا مجھ سے
ساتھ اب تیرے نہیں اور گزارا ہوتا
دھوپ ہوتے ہوئے بھی ابر برسنے لگتا
چھت پے جانا جو کبھی تجھ کو گوارا توتا

0
261