مرے پاؤں پھسلتے ہیں جہاں پر لوگ چلتے ہیں
جہاں پر لوگ ہنستے ہیں مرے آنسو مچلتے ہیں
وہ مجھ سے پوچھتا ہے کیوں میں تنہا ہوں زمانے میں
یہاں پر لوگ گرگٹ کی طرح ہر پل بدلتے ہیں
یہاں طاقت ملے تھوڑی تو سیدھی سر کو جاتی ہے
یہ سانپوں کی طرح اپنے ہی بچوں کو نگلتے ہیں
یہاں اشرافیہ کو دُھن ہے دولت کے دکھاوے کی
غریبِ شہر کے جذبات کو پل پل مسلتے ہیں
مجھے اب چین سے آوارگی جینے نہیں دے گی
چلو اس شہر سے چپ چاپ شاہدؔ اب نکلتے ہیں

0
46