| محبت کی صدا گونجے گی کیسے روزن و در سے |
| زبانیں کاٹی جاتی ہوں جہاں نفرت کے خنجر سے |
| یہ سب انساں نما بت بولتے ہیں اور نہ سنتے ہیں |
| مگریہ بات کوئی پوچھنے والا ہے آذر سے |
| اگر ہو انحصارِ زندگی تو کیوں نہ ہو اچھا |
| گوہر کے واسطے اک قطرہِ شبنم سمندر سے |
| بتائیں کیا کسی کو بے سر و سامانیاں اپنی |
| چھپائیں سر تو باہر پیر ہو جاتے ہیں چادر سے |
| تعصب، بُعد، دوری، نفرتیں، بغض و حسد، کینہ |
| کبھی سوچا کہ ہم بیمار ہیں کس درجہ اندر سے |
| کوئی پوچھے ندامت کے سوا کچھ اور کیا ہوگا |
| اگر ہم ہاتھ خالی لوٹ کر جائیں ترے در سے |
| حبیب احوال کیا دنیا کو بتلائیں کہ ہم سب ہیں |
| وہ چوکھٹ جس کو دیمک کھوکھلا کر جائے اندر سے |
معلومات