میں مر رہا تھا میں ڈر رہا تھا
میں روز سولی پہ چڑھ رہا تھا
وہاں میسر تھے چاہنے کو
یہاں غموں سے میں مر رہا تھا
میں دل حسن کو تھما چلا ہوں
مگر وہ دل سے اتر رہا تھا
اتر گیا تیرا نقش کیسے
کدھر بے جا سا تو پھر رہا تھا
میں آج کافر ہوا محبت
کبھی تو سجدے میں سر رہا تھا
تمھیں زرا سا سکوں ملا کیا
عطا مگر جب بکھر رہا تھا

0
50