کوئی داستاں ہو عروج کی یا کوئی زوال کی یاد رکھ
یہی سب تو رنگِ حیات ہے تو ہر اک غمی خوشی یاد رکھ
یہ تو زندگی کا نصیب ہے وہ نشیب ہوں کہ فراز ہوں
نہ بجا کہ تو خوشی بھول جا نہ روا کہ بس غمی یاد رکھ
یہ جو ساعتیں ہیں حیات کی انھیں کاٹ لے انھیں جھیل جا
شبِ ہجر صبحِ وصال کو کبھی بھول جا کبھی یاد رکھ
کبھی روشنی کبھی تیرگی کبھی قربتیں کبھی فاصلے
اسی دھوپ چھاؤں میں کاٹنی ہے تمام زندگی یاد رکھ
یہی بس حبیب کمال ہے کوئی حال ہو نہ بھلا اسے
یہ نہیں تقاضہِ بندگی ملیں رنج و غم تبھی یاد رکھ

0
49