کیوں خوش نہیں دل تحصیلِ منزل پر؟
حیراں ہے ابھی تک ختمِ مشکل پر
آنکھوں میں سجا اِمکانِ فردا کا نور
کیوں روتے ہو ناکامیِ رفتہ کل پر
انگشت بدنداں ہیں اہلِ مجلس
وہ رنگ جماتے ایسا محفل پر
اُس مست خرامی کا ہمیں گزرا گُماں
موجوں کی سمندر میں اِس ہلچل پر
نازاں ہو بہت اپنے مقدر پر وہ
رنجائے قدم ہو جائیں گر مخمل پر
اب مِؔہر کہیں ناصح نا بن جانا
احساں ہو گا آئندہ نسلِ کل پر
--------٭٭٭---------

0
86