| ہر شخص اس کے جانے سے گو اشکبار تھا |
| پر مُصطفٰے کی یاد میں یہ دل فِگار تھا |
| آنکھوں کے سامنے مرے چہرہ وہ آگیا |
| جو سب کا خیر خواہ تھا اور غمگسار تھا |
| آیا تھا دور سے مگر آگے نکل گیا |
| میدانِ عشق کا وہ عجب شہسوار تھا |
| فطرت میں اس کے رکھی تھی ، سچائی کی طلب |
| آیا اسی سبب سے وہ انجام کار تھا |
| چُھوٹی نہیں نماز کوئی بھی کبھی کہیں |
| یوں بارگاہِ حق کا وہ طاعت گزار تھا |
| ترجیح اس کی یہ رہی مسجد میں ہو نماز |
| پھیلا ہوا اگرچہ اس کا کاروبار تھا |
| ذکرِ حبیب سے سدا رہتے تھے ہونٹ تر |
| وہ صاف دل کھرا تھا تہجّد گزار تھا |
| قربانیوں میں مال کی آگے رہا سدا |
| یوں موصیوں میں ہو گیا اس کا شُمار تھا |
| وہ ہو گیا تھا ایسا خلافت پہ پھر فدا |
| ہوتا تھا رشک دیکھ کر اس کا جو پیار تھا |
| موقع وہ ڈھونڈتا تھا کہ نیکی کہیں ملے |
| مہماں نواز تھا بڑا خدمت گزار تھا |
| اس پر خدا کے فضل بھی بے شک بڑے ہوئے |
| ہر لحظہ شکر کرنے میں پاتا قرار تھا |
| اپنے عمل سے دے گیا بچوں کو یہ مثال |
| اولاد مال وقت سب دیں پر نثار تھا |
| لہجے میں عاجزی رہی خوفِ خدا رہا |
| تبلیغ کا بھی شوق اسے بے شمار تھا |
| مُشکل ہے اس کی خوبیاں ساری بیان ہوں |
| گلدستہ تھا ہر پھول پر جس کے نکھار تھا |
| آقا نے اس سے پیار کا اظہار جو کیا |
| رشکِ چمن ہوا جو خود باغ و بہار تھا |
| طارق وہ جا ملا اسے جو اس کا یار تھا |
| جنّت کے راستے پہ مرا یارِ غار تھا |
| ڈاکٹر طارق انور باجوہ۔ لندن |
معلومات