ایک دن اے زندگی تم سے جدا ہو جائیں گے
مستقل پھر قید سے تیری رہا ہو جائیں گے
دو نہ ہم کو واسطہ اپنی وفاداری کا تم
تم سے کیا پھر خود سے بھی ہم بے وفا ہو جائیں گے
زندگی میں بیسیوں دکھ ہیں مداوا ہے نہیں
مر کے پھر تو موت کی بھی ہم دوا ہو جائیں گے
زندگی میں تلخیاں اتنی ہیں پینے دے ذرا
غم نہیں ہو گا تو ہم بھی پارسا ہو جائیں گے
شیخ صاحب وعظ سے پہلے ذرا یہ سوچ لیں
گر گنہ سرزد نہ ہو گا ہم خدا ہو جائیں گے

51