زندگی نکھرتی ہے بندگی نکھرتی ہے
مدحتِ محمد سے شاعری نکھرتی ہے
چاند بھی کرے سجدہ روضۂِ محمد پر
چاند کی مدینے میں چاندنی نکھرتی ہے
درس ہم کو دیتی ہے یہ بلال کی ہستی
جب جفائیں ہوتی ہیں عاشقی نکھرتی ہے
محفلِ شہِ عالم جس جگہ سجاتے ہیں
وہ نگر نکھرتا ہے وہ گلی نکھرتی ہے
جب کوئی بھی کرتا ہے گفتگو مدینے کی
گلشنِ محبت کی ہر کلی نکھرتی ہے
سنتِ صفی اللہ ہر گھڑی ادا کرنا
بالیقیں نگاہوں کی روشنی نکھرتی ہے
جھومتا تصدق ہے بخت شادمانی میں
جب درود پڑھتا ہوں ہر خوشی نکھرتی ہے

96