جذبہ خلوص و پیار کا خواب و خیال ہو گیا
دنیا میں اہلِ درد کا جینا محال ہو گیا
مجھ سے بچھڑ کے دیکھئے پھرتا ہے وہ نگر نگر
میرا جو حال تھا کبھی اس کا وہ حال ہو گیا
لب تو خموش ہی رہے آنکھیں نہ ضبط کر سکیں
کچھ بھی سہی دراز تو دستِ سوال ہو گیا
ان کو منا لیا گیا ان کو بلا لیا گیا
کیسا کمال ہو گیا آساں محال ہو گیا
میری نظر کی شوخیاں کیسا کمال کر گئیں
اس کا ہر اک رواں رواں خشبو خصال ہو گیا

0
45