چشمِ بینا کو نظر آئے وہ جلوہ پیار کا
محوِ حیرت دیکھ کر احسان ہے سرکار کا
تھا جو اسماعیل میں مادہ اطاعت کا بھرا
ہو گا بچہ بھی تو مظہر باپ کے کردار کا
لوگ کہتے ہوں اگر شوریدہ سر اور خود غرض
کون موقع ڈھونڈتا ہے لطف کے اظہار کا
جانتا کوئی نہیں ہے اس کے اسرار و رمُوز
راز داں کوئی نہیں قدرت کے کاروبار کا
چاند سورج سے منوّر ہو کے لگتا ہے حسیں
اور نظّارہ ستاروں میں اُسی چمکار کا
حسنِ یوسُف میں نظر آئی تھی اک تیری جھلک
تھے محمّد اک نمونہ حسن کے شہکار کا
دل کا اطمینان کھویا ہم نے جب کھویا تجھے
ذکر کس سے اب کریں گے ہجر کے آزار کا
آتی جاتی سانس بھی مرہونِ منّت ہے تری
تیرے بِن کیسے گزارا ہو دلِ بیمار کا
ہر گھڑی ہے رابطہ جب تک کہ دم میں دم رہے
دل کی دھڑکن نام لیتی ہے اسی دلدار کا
زندگی کی ناؤ ہاتھوں میں ہے جس کے نا خُدا
فیصلہ کرتا ہے چن کر راستہ پتوار کا
سائباں بن کر ہمیشہ کے لئے رہتا نہیں
اعتبار آئے گا کیا پھر چرخِ نا ہنجار کا
ڈھونڈ لے طارق اسے جو عمر بھر کا ساتھ دے
چاہیئے کیا ساتھ اگر تجھ کو ملے ابرار کا

0
15