حرفوں میں بہا دینا اشکوں کی روانی کو
اک شعر میں کہہ دینا دنیا کی کہانی کو
کوئی تم سے اگر پوچھے تھا کون ستم گر وہ
افلاک کو کہہ دینا تم اسکی نشانی کو
ہر شخص زمانے کا پتا ترا ہی پوچھے ہے
ترسا نہیں بس موسیٰ ہی صدائے ترانی کو
نا تھمتے ہے کبھی دیکھا خیال کے پنچھی کو
نا ہی رکتے دیکھا ہے کبھی ڈھلتی جوانی کو
دیکھو جو کہنا ہے ذرا سوچ کے کہنا تم
کبھی یاد دلا دوں گا کسی بات پرانی کو
اکثر یہ ہوتا ہے آخر یہ دنیا ہے
غم ہے جو پہلے کا آواز ہے ثانی کو
دشوار تفکر ہے آسان عقیدہ ہے
یہی تو گتھی ہے کہ مشکل ہے آسانی کو

0
58