اندر کی بات ہے جو ، سمجھ پائیں گے وہ کیا |
ٹھوکر اگر لگی ہے ، سنبھل جائیں گے وہ کیا |
کرتے ہیں وہ رقیب سے جا کر شکایتیں |
اب اس سے بڑھ کے اور ستم ڈھائیں گے وہ کیا |
ترکش سے اپنے تیر چلاتے تو خوب تھا |
لشکر بھی ساتھ دشمنوں کا لائیں گے وہ کیا |
دامن سمیٹ کر چلیں ، ہے راہ خاردار |
اس پر چلے تو پاؤں کو بچائیں گے وہ کیا |
بھولا کہیں نہ اس کو جو لوٹ آئے شام کو |
آخر تو اپنے گھر کو ہی لوٹ آئیں گے وہ کیا |
پتّے شجر سے ٹوٹے نہیں ، آئیں آندھیاں |
اب ان کو پھونک مار کے گرائیں گے وہ کیا |
اپنے پرائے کی ہمیں پہچان ہو گئی |
طارق کسی کو فائدہ پہنچائیں گے وہ کیا |
معلومات