غم کی فریاد بھی مہجور ہوا کرتی ہے |
شب کے مارے ہوئے لوگوں سے ملا کرتی ہے |
اس نے چھوڑا تو مرا چین بھی روٹھا مجھ سے |
اب تو وحشت ہی مرے گھر میں رہا کرتی ہے |
تم تو سنتے بھی نہیں ہو مرا افسانہ غم |
ورنہ دکھ درد تو خلقت بھی سنا کرتی ہے |
ہو نہ جس کا کوئی غم خوار سہارا جگ میں |
اس کی پلکوں پہ سدا نمی دکھا کرتی ہے |
زخم سینے کے مٹائے نہیں مٹتے اب تو |
خوں کی ندیا سی کوئی ان سے بہا کرتی ہے |
ہجر کی رات مرے گھر میں بسی ہے ساغر |
رفتہ رفتہ وہ مرا خون پیا کرتی ہے |
معلومات