جو نہ ہونا تھا وہ کیسے ہو گیا
لگ گئی کس کی نجانے بد دعا
چار دن کا ساتھ تھا پھر ہم جدا
مٹ نہ پایا تھا ابھی رنگِ حنا
"میں" ہمارے بیچ کیسے آ گئی
کھا گئی رشتوں کو اپنی یہ انا
کاش اس میں صبر ہوتا جو نہ تھا
سن تو لیتا وہ ہمارا مدعا
ساتھ تھا پر درمیاں دیوار تھی
فاصلہ ایسا تھا جو نہ مٹ سکا
اس بحث کا کچھ نہیں اب فائدہ
فیصلہ اب کیوں کریں کس کی خطا
اپنی منزل پر پہنچ نہ پائے ہم
ابتدا ہی سے غلط تھا راستہ
جاؤ جاتے ہو جہاں بس الوداع
خوش رہو میری تو ہے یہ ہی دعا
دل کا غم اب کس طرح ہلکا کروں
جام ہے نہ ہے کوئی بھی آشنا
چند سال بعد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جل رہا ہے وہ دیا دیوار پر
نام اس کا جس پہ ہے لکھا ہوا
اس کی خوشبو ہر طرف پھیلی ہوئی
چھو کے آئی ہے اسے بادِ صبا
اب بھی ہے امید کے شاید کبھی
سن کے آئے گا مرے دل کی صدا

0
39