نہ مکاں ہے نہ ہے مکیں باقی |
کسی شے کا نشاں نہیں باقی |
یکسر اب مجھ میں میں نہیں باقی |
تو ہے لیکن کہیں کہیں باقی |
اب تو موجود ہی نہیں کہیں کچھ |
اب بھی ہوں کیا یہیں کہیں باقی |
تب گماں پر گماں تھا ہم کو مگر |
اب یقیں پر یقیں نہیں باقی |
وصل کی شب سحر کا ذکر نہ چھیڑ |
ابھی ہے رات شبنمیں باقی |
مذہبِ دل جو اختیار کیا |
اب کسے فکرِ کفر و دیں باقی |
دل عمارت تو بہہ گئی کب کی |
بس ہیں دیواریں بے زمیں باقی |
اب کرو گے کہاں فساد بپا |
اب بھی ہے کیا کوئی زمیں باقی |
ہائے سب دورِ غم گزر گئے تھے |
آنا تھا دورِ آفریں باقی |
غم نے وہ گل بدن بھی چاٹ لیا |
اب کہاں جسمِ صندلیں باقی |
آنکھوں کے گرد حلقے بھی پڑے ہیں |
اب کہاں چشمِ خوشمگیں باقی |
معلومات