ہم اپنے آپ کا سب کچھ بدل کے دیکھتے ہیں |
ترے مزاج کے سانچے میں ڈھل کے دیکھتے ہیں |
سنا ہے خوش ہے تجھے خود سپردگی کی ادا |
چلو تو آج ذرا سا پگھل کے دیکھتے ہیں |
جو نرم خوئی زمانے کو خوش نہیں ہے تو پھر |
ذرا سی دیر کو لہجہ بدل کے دیکھتے ہیں |
نہیں ہے دور تلک کوئی منزلوں کا نشاں |
تو آؤ ہم نئے رستے پہ چل کے دیکھتے ہیں |
عجیب لوگ ہیں روشن ہوئے دیئے کو اگر |
کبھی جو دیکھ بھی لیتے ہیں جل کے دیکھتے ہیں |
ہزار شب سے فزوں تر جو شب ہے اس کی ذرا |
سیاہی اپنے تن و من پہ مل کے دیکھتے ہیں |
کبھی چلا ہے اصولوں سے کوئی کام؟ تو پھر |
زمانے! ہم بھی کوئی چال چل کے دیکھتے ہیں |
جو ضد کرے کوئی بچہ نہیں قرار تو پھر |
حضورِ رب ذرا ہم بھی مچل کے دیکھتے ہیں |
پرانی قدر و روایت سے کیا تعلق ہے |
جو رنگ و ڈھنگ یہاں آج کل کے دیکھتے ہیں |
حبیب ظاہر و باطن میں کیا ہے فرق، ذرا |
بدن کے خول سے باہر نکل کے دیکھتے ہیں |
معلومات