کچھ راہ و رسم تجھ سے ، مرے کام آئی تو
لے کر صبا پیام ، مرے نام آئی تو
کم ظرف تھے جو مانگنے کا حوصلہ نہ تھا
تیری نگاہِ مست ، لئے جام آئی تو
خوشبو ترے بدن کی تھی آنگن میں آگئی
یادیں تری سمیٹ کے پھر شام آئی تو
آزاد سوچ تھی جسے قابو نہ کر سکے
وہ بھی زہے نصیب ، تہہِ دام آئی تو
دن بھر تھا انتظار رہا اس کی دید کا
پھر بن سنور کے شام ، سرِ بام آئی تو
طارقؔ ہے زندگی تو اسی کشمکش کا نام
کہتے ہیں موت دینے کو آرام آئی تو

0
15