کچھ راہ و رسم تجھ سے ، مرے کام آئی تو |
لے کر صبا پیام ، مرے نام آئی تو |
کم ظرف تھے جو مانگنے کا حوصلہ نہ تھا |
تیری نگاہِ مست ، لئے جام آئی تو |
خوشبو ترے بدن کی تھی آنگن میں آگئی |
یادیں تری سمیٹ کے پھر شام آئی تو |
آزاد سوچ تھی جسے قابو نہ کر سکے |
وہ بھی زہے نصیب ، تہہِ دام آئی تو |
دن بھر تھا انتظار رہا اس کی دید کا |
پھر بن سنور کے شام ، سرِ بام آئی تو |
طارقؔ ہے زندگی تو اسی کشمکش کا نام |
کہتے ہیں موت دینے کو آرام آئی تو |
معلومات