تم جسے دوستی سمجھتی ہو
کیا محبت میں ہو نہیں سکتی
بات سن لو ہماری جلدی میں
کیونکہ فرصت میں ہو نہیں سکتی
کل محبت مری ہے اس کی یار
کیسے عدّت میں ہو نہیں سکتی
اک سہولت بھی خودکشی کے لیے
کس عمارت میں ہو نہیں سکتی
بات جو کی گئی ہے کفر میں آج
وہ امامت میں ہو نہیں سکتی
مصلحت میں جو بات ہو رہی ہے
وہ بغاوت میں ہو نہیں سکتی
حرج ہے بزمِ شعر گوئی میں کیا
کاہے جنّت میں ہو نہیں سکتی
پھر جلا دو اسے، غریب کی بات
جس عدالت میں ہو نہیں سکتی
نور شیر

0
110