وہ بچھڑ کر یہاں سے اور کدھر جا ئے گا
مجھ سے وہ دور اگر جاۓ گا مر جا ئے گا
دیش کا بگڑا ہوا حال سدھر جا ئے گا
تخت سے وقت کا حاکم جب اتر جا ئے گا
یوں نہ گھبراؤ بُرے وقت سے میرے ہمدم
وقت کا کام گزرنا ہے گزر جا ئے گا
تم جو آجا ؤ مرے خواب کے گلشن میں کبھی
گلشن خواب کا ہر پھول نکھر جا ئے گا
کارناموں کو تو دیکھے گا سیاست کے جب
پھر سیاست کا نشہ تم سے اتر جا ئے گا
لٹ گیا جاتے ہی میں شہر محبت اے دوست
تو بھی لٹ جا ئے گا گر تو بھی اُدھر جائے گا
جب کہیں جاؤ ذرا ماں سے دعا لو یونسؔ
کچھ نہیں ہو گا دعا لے کے اگر جا ۓ گا

17