خود غرضی سی ہے مرے حلقہ احباب اندر
راہی بھی گیا مر آ کے دشت سراب اندر
جو بادہ خوار کو لطف اندوز نہ کر پائے
کچھ نفع نہیں مے کش کا ایسی شراب اندر
لا حاصل ہے وہ حیات کی ساعت میں پھر سے
جو بھی لُطفِ پیہم ہے عہد شباب اندر
سکتی ہے پلٹ کایا تری یہ اُمُّ الْكِتٰب ہے
نہیں اس جیسی تاثیر کسی بھی کتاب اندر
سنا ہے غیرت ایوبی کا قصہ جب سے
ہے اک طوفان سا میرا خانہ خراب اندر
افسردہ نہ ہو بارق کہ قریب ہے اوج چمن
دیکھی ہیں تُوتیاں تو نے عالم خواب اندر

0
96