اُس نے پوچھا تو مُدّعا ہم سے
کیسے آئے ہو یہ کہا ہم سے
بد گُمانی تو تھی زمانے کو
اُس کو کوئی نہ تھا گِلہ ہم سے
ہم نے کب دوسروں کی پروا کی
فکر تھی وہ نہ ہو خفا ہم سے
کشتیٔ نوح میں ہیں سوچیں اب
چاہتا کیا ہے ناخُدا ہم سے
زندگی ہے سو وہ اسی کی ہے
اور مانگے گی کیا قضا ہم سے
سوچ لو راہ یہ کٹھن ہے ذرا
اُس نے پوچھا تھا بارہا ہم سے
چل پڑے ہم بھی ساتھ ساتھ اُس کے
اور کتنے تھے با وفا ہم سے
جان طارق اسی کے نام پہ کی
اِس سے بڑھ کر نہ کچھ ہوا ہم سے

0
47