زہرا کے گلستاں سے منور ہے کربلا
ہر گل کی خوشبوؤں سے معطر ہے کربلا
کہنے لگی خدا سے کہ کیسا یہ نور ہے
چہرے سے ہٹتا پردۂِ اکبرؑ ہے کربلا
اکبرؑ جواں نے اپنی جوانی کو دے دیا
اس واسطے تو اب بھی جواں تر ہے کربلا
ہائے وہ حلق اور وہ تیرِ ستم کا وار
خیمے کے در پہ گر گئی مادر ہے کربلا
دینِ خدا پہ سارے بجھا کے چراغوں کو
روشن جو دیں کو کر دے وہ سرورؑ ہے کربلا
دکھیاری ماں کے نالے ہیں زندانِ شام میں
مدفوں ہے بیٹی شام میں اصغرؑ ہے کربلا
صائب انی کو تھامے ہوئے بیٹھے ہیں حسیؑن
کیسے نکالوں ہائے یہ اکبرؑ ہے کربلا۔

0
22