میں خود کو کھو رہا ہوں مجھ کو بچائے کوئی
میرے وجود کا پھر سپنا دکھائے کوئی
وہ دل وہ شہرِ امید وہ گل وہ باغِ خورشید
ویران ہو چکا ہے اس کو بسائے کوئی
وہ جس کو میں ابھی تک اپنا وجود کہتا
موجود ہے کہیں تو مجھ کو دکھائے کوئی
اب تو میں خواب گر کی ہر بات سے ہوں واقف
جو درمیاں ہے پردہ اس کو ہٹائے کوئی
دل تو یوں پھولوں سے بھی اکتا ہی جاتا ہے پھر
کانٹوں سے رشتہ آخر کب تک نبھائے کوئی
کیا ہے نصیب میں گر بس انتظار ہی ہے
یوں بھی جی ہی لیں گے ہم آئے نہ آئے کوئی
زندہ دلی ہی تو ہے دشتِ وجود یارو
یہ لوگ ، زندہ لاشیں ان کو جگائے کوئی
میرا بھی خواب تھا یہ جاناں کبھی یوں بھی ہو
میں روٹھ جاؤں مجھ کو مجھ سا منائے کوئی

112