| آخری سانس تلک رشتہ نبھائے رکھا |
| تیرے زخموں کو کلیجے سے لگائے رکھا |
| ایک لحظے کو بھی بھولے سے نہ جو یاد آیا |
| اس نے جیون کو تری یاد بنائے رکھا |
| اپنے حصے کی خوشی تجھ پہ ہے واری ساری |
| غم تری دین تھے ، سو ان کو بچائے رکھا |
| دلِ ویراں کِیا آباد تری یادوں سے |
| اور آنکھوں کو تری راہ بچھائے رکھا |
| اور ہونگے وہ کوئی دل جو کہ ظلمت ہونگے |
| نارِ فرقت نے دیا دل میں جلائے رکھا |
| ایک ایسا بھی ہے گوشہء تخیل جس کو |
| تیرے پیکر کے تصور سے سجائے رکھا |
| |
معلومات