دل سے نکلے ہیں کہ منزل کی خبر کچھ بھی نہیں
تیری یادوں کے سوا رختِ سفر کچھ بھی نہیں
آج اک سال ہوا عشق میں جلتے ہم کو
اور ان بارہ مہینوں کا ثمر کچھ بھی نہیں
پوری بستی میں مرے عشق کی بدنامی ہے
کتنا معصوم ہے تو، تجھ کو خبر کچھ بھی نہیں
آؤ چلتے ہیں کہیں اور کہ سمجھے جائیں
اس علاقے میں تو ہیروں کی قدر کچھ بھی نہیں
ان سے ملنا تو انھیں شعر سنانا میرے
وہ جو کہتے ہیں اسامہ میں ہنر کچھ بھی نہیں

0
88