کوئی دیکھے ناں اس کی جانب کیسے بھی |
ہم نے خود سے بھی اس کو چھپا رکھا ہے |
وہ اور ہیں جو حقیقت پر ڈٹ جاتے ہیں |
ہم نے تو سورج کو بھی چاند بتا رکھا ہے |
پاؤں زخمی ہوئے تو وہ سر کے بل دوڑے |
جب ہی تو تاریخ میں لفظِ وفا رکھا ہے |
لایا قاصد خط میں پھر ایک سوال اس کا |
بولو تجھ پر کیوں مریں تم میں کیا رکھا ہے |
وہ سختی سے بولے تھے تم نے نہیں آنا |
اور ہم نے یاروں کو کہا ہم کو بلا رکھا ہے |
معلومات