کوئی دیکھے ناں اس کی جانب کیسے بھی
ہم نے خود سے بھی اس کو چھپا رکھا ہے
وہ اور ہیں جو حقیقت پر ڈٹ جاتے ہیں
ہم نے تو سورج کو بھی چاند بتا رکھا ہے
پاؤں زخمی ہوئے تو وہ سر کے بل دوڑے
جب ہی تو تاریخ میں لفظِ وفا رکھا ہے
لایا قاصد خط میں پھر ایک سوال اس کا
بولو تجھ پر کیوں مریں تم میں کیا رکھا ہے
وہ سختی سے بولے تھے تم نے نہیں آنا
اور ہم نے یاروں کو کہا ہم کو بلا رکھا ہے

0
97