ہم تو یہ ظلم کر نہیں سکتے
کاٹ اپنے شجر نہیں سکتے
تہمتوں کا ہے خوف اتنا کہ ہم
اس گلی سے گزر نہیں سکتے
اس کی آنکھوں میں ڈوبنے والے
عمر ساری ابھر نہیں سکتے
ہیں تغیر پسند اتنے کہ وہ
ایک دل میں ٹھہر نہیں سکتے
چھوڑ کر اب چلا گیا ہے وہ
اور ہم آہ بھر نہیں سکتے
لوگ دیتے نہیں مجھے جینے
حکم رب کا ہے مر نہیں سکتے
لاکھ کوشش کرو اسامہؔ تم
اس کے دل میں اتر نہیں سکتے

66