آئی نہ یاد اس کو میری ذرا وفا تک
میں نے بھلا دیا ہے جس کے لئے خدا تک
سولی پہ سر چڑھا دو جتنا ہو جلدی ممکن
مقصود جب ہو مرنا پھر کیوں جِئوں سزا تک
کرتا اگر میں ہائے لگتا ہے داغ مجھ پر
اک وہ ہیں،قتل بھی جن پر ہو گیا روا تک
یہ چیر کے کلیجہ رکھ دوں گا سامنے میں
اک بار تو پہنچنے دے بس ذرا خدا تک
مرتا تڑپ تڑپ کے میں سامنے رہا ہوں
اللّٰہ طبیب نے بھی نا دی مجھے دوا تک
اب ہاتھ کو اٹھاؤ بس وقتِ جاں کنی ہے
سب جاں نکل چکی ہے آنکھیں کھلی دعا تک
میرے جگر کا خوں وہ کرتے رہے ہمیشہ
سالک زباں سے پھر بھی نکلا نہ اک گلہ تک

56