نئی لڑائی کوئی اب نہیں لڑی جائے
سکوں سے بیٹھ کے اب بات بس سنی جائے
بہت گھمایا پھرایا ہے ہم نے لفظوں کو
جو دل میں بات ہے اب بات وہ کہی جائے
سکون ایک پل اک دوسرے کو کیا دیتے
اب ایک دوسرے کی جان بخش دی جائے
ہزار طرح کی بندش میں زندگی گذری
جو اب بچی ہے وہ مرضی سے اپنی جی جائے
میں بوند بوند کا ترسا ہوا شرابی ہوں
دبا کے پی لوں کہ اب میری مئے کشی جائے

0
50