منفرد اس لئے اسلوبِ بیاں رکھتا ہوں
اپنے شعروں میں مطالب کا جہاں رکھتا ہوں
جھانک کر دل میں مرے دیکھ نہ پائے کوئی
کیسے بتلاؤں کہ غم اپنے کہاں رکھتا ہوں
فائدہ تجھ کو ہو نقصان نہ ہو جائے کہیں
میں کہاں تجھ سے الگ سود و زیاں رکھتا ہوں
ہوں جو درویش تو لٹنے کا نہیں ڈر کوئی
کھول کر کھڑکیاں دروازے مکاں رکھتا ہوں
ہے کتاب ایک کھلی زندگی اپنی ساری
ہاں محبّت کو تری دل میں نہاں رکھتا ہوں
قید کر سکتا نہیں سوچ کی پرواز کوئی
بال و پر کھول کے اڑنے کا گماں رکھتا ہوں
میری خاموشی سے کمزوری کا مطلب نہ نکال
بول سکتا ہوں کہ میں منہ میں زباں رکھتا ہوں
طارق اِس بزم کے لوگوں سے شناسائی ہے
دشمنی دوستی ان پر میں عیاں رکھتا ہوں

0
8