خمار تھا تری آنکھوں میں وہ خمار کہاں |
نظر میں تیری جو ہوتا تھا وہ نکھار کہاں |
نہ وصل کی وہ تپش ہے نہ ہجر کی وہ تڑپ |
کہاں گیا وہ دلوں میں چھپا شرار کہاں |
سکون تھا جو کبھی تیرے لمس کی خوشبو |
ہوا میں ہے وہ مہک اب تو بار بار کہاں |
ترے لبوں پہ تھے کچھ خواب میرے نام کے جو |
اب ان خیالوں میں باقی رہا خمار کہاں |
نظر میں تیری جو اک راز سا چھپا رہتا |
اب اس نظر میں ہے وہ رمزِ پردہ دار کہاں |
نہ دل کی دھڑکنیں وہ، تو نہ حرف میں شدت |
محبتوں کا وہ پہلا سا اعتبار کہاں |
جا کے کہو اسے تقدیر کا فریب سہی |
ملی وہ قربتیں ساری ، کسی کو یار کہا |
خورشید حسرت |
معلومات