فرنگی تھے اک سمت ، اک سمت ہندو
تھے شیطاں کے چیلے وہ ایماں کے ڈاکو
۔
تھا ظلم و ستم عام ، خطرے میں ایماں
اسیری کی زنجیروں میں تھے مسلماں
۔
فقط تھی یہی اہل ایماں میں خامی
سمجھنے لگے ہے مقدر غلامی
۔
تبھی زندہ دل مومن اک ماں نے جایا
انھیں خواب غفلت سے جس نے جگایا
۔
نوازا اسے علم و حکمت سے رب نے
نگاہِ کرم کی رسولِ عرب نے
۔
لہو میں تھی ہمدردی و خیرخواہی
ستم گر کے آگے دٹا وہ سپاہی
۔
فصاحت ، بلاغت ، ذہانت بلا کی
حرارت تھی ایماں کی ،طاقت قلم کی
۔
مسیحا ، مفکر ، مدبر تھا ایسا
وطن ہو الگ ، مدعا یہ اٹھایا
۔
امید اک نئی مومنوں میں جگائی
نئی سوچ پھونکی نئی روح ڈالی
۔
بتایا بتوں کے ہیں ہندو پجاری
فرنگی بھی ہیں مومنو ! رب کے باغی
۔
ہمارا ہے ایماں فقط اک خدا پر
انھوں نے تراشے خدا ہر جگہ پر
۔
ہے دو قوموں کا نظریہ یہ
مزید اب نہیں بحث اس پہ
۔
نہ رسم و رواج اک ہمارے تمھارے
الگ ہیں تمدن ، ثقافت ہمارے
۔
خودی عشق احمد تھے مضمون اس کے
وطن کے لیے ہم ہیں ممنون اس کے
۔
خودی کا وہ بیج اس نے دل میں لگایا
ثمر میں یہ ایسا وطن ہم نے پایا
۔
ہے احسان اقبال کا مومنوں پر
جگایا ہے امت کو دن رات لکھ کر

0
11