| جدا ہوئے بھی تو آپس میں دوستانہ ہو |
| خلش سے آشنا ہر گز نہ یہ زمانہ ہو |
| پھر اک تو یہ بھی تقاضا ہے والہانہ ہو |
| تمھارا حال بیاں ہو تو شاعرانہ ہو |
| تم ایک خواب کی دوری پہ مل بھی سکتے ہو |
| شبِ فراق تو ممکن ہے اک بہانہ ہو |
| اسی خیال میں صحرا نشیں ہوئے کتنے |
| کہ شہر بھر سے پرے دور اک ٹھکانہ ہو |
| جو عرضِ حال ہے لفظوں میں کہہ نہیں سکتے |
| اور ایسا گُر بھی نہیں حالِ غائبانہ ہو |
معلومات