یہی میری روایت ہے یونہی آغاز کرتا ہوں
خدا کا نام لے کرکے تمہیں آداب کہتا ہوں
مرے لفظوں میں شامل ہے تری یادوں کی خوشبو بھی
میں مصرعے گنگناتا ہوں تری خوشبوئیں پاتا ہوں
کوئی صورت بھی گر دیکھوں کوئی تصویر جب دیکھوں
ترا دیدار ہوتا ہے تجھے محسوس کرتا ہوں
نہیں ہے ڈر کوئی مجھ کو مرے ہمدم بجز اسکے
تجھے کھونے کا ڈر ہے بس ،اسی ڈر سے میں ڈرتا ہوں
یہ تیرے نام کی نسبت کا فیضِ عام ہے مجھ پر
زمانے کے حوادث سے تنِ تنہا میں لڑتا ہوں
میں خود میں اب نہیں رہتا مجھے ڈھونڈو کسی رہ میں
مرا مقصد ضیا کرنا دیۓ کی طرح جلتا ہوں
مجھے کچھ بھی سمجھ لو تم نہیں کچھ غم مجھے لیکن
میں ویسا ہوں نہیں جاناں کہ جیسا تم کو لگتا ہوں
جو پھولوں کی تمنا ہے گزر کانٹوں سے پھر طالب
یہی قانونِ فطرت ہے یہی میں تجھ سے کہتا ہوں

0
28