ایک چھوٹے سے مکاں میں تھے محل میں آئے
راہبر ایسے ملے ہم نہ دجَل میں آئے
جب محمد ہوئے مدفون ہیں اس دنیا میں
حضرتِ عیسٰی بھی پھر دامِ اجل میں آئے
موت کا ذائقہ چکھتے ہیں سبھی شاہ و گدا
کوئی ہر روز ہی تدفین عمل میں آئے
جب زمیں مثلِ بہشت اونچی پنہ گاہ بنی
آسماں اس کے لئے کیسے خلل میں آئے
آشتی صلح کا پیغام مسیحا نے دیا
اب کہاں فتح بھلا جنگ وجدل میں آئے
اب تو مدّت سے تری یاد ستاتی بھی نہیں
اشک آنکھوں میں کہاں ہجر کے پل میں آئے
ہجر کے بعد ہوا کرتا ہے جو وصل نصیب
اور شیرینی ذرا صبر کے پھل میں آئے
لن ترانی کی صدا پھر سے سنائی دی ہے
زلزلہ پھر سے کوئی طُور جبل میں آئے
ذکر آیا نہیں گر اس میں کسی مہ رُخ کا
کیوں مزہ آپ کو طارق کی غزل میں آئے

1
64
پسندیدگی کا شکریہ ناصر ابراہیم صاحب! نوازش!

0