ایک چھوٹے سے مکاں میں تھے محل میں آئے |
راہبر ایسے ملے ہم نہ دجَل میں آئے |
جب محمد ہوئے مدفون ہیں اس دنیا میں |
حضرتِ عیسٰی بھی پھر دامِ اجل میں آئے |
موت کا ذائقہ چکھتے ہیں سبھی شاہ و گدا |
کوئی ہر روز ہی تدفین عمل میں آئے |
جب زمیں مثلِ بہشت اونچی پنہ گاہ بنی |
آسماں اس کے لئے کیسے خلل میں آئے |
آشتی صلح کا پیغام مسیحا نے دیا |
اب کہاں فتح بھلا جنگ وجدل میں آئے |
اب تو مدّت سے تری یاد ستاتی بھی نہیں |
اشک آنکھوں میں کہاں ہجر کے پل میں آئے |
ہجر کے بعد ہوا کرتا ہے جو وصل نصیب |
اور شیرینی ذرا صبر کے پھل میں آئے |
لن ترانی کی صدا پھر سے سنائی دی ہے |
زلزلہ پھر سے کوئی طُور جبل میں آئے |
ذکر آیا نہیں گر اس میں کسی مہ رُخ کا |
کیوں مزہ آپ کو طارق کی غزل میں آئے |
معلومات