جہاں میں کتنے حسیں دیکھنے میں آتے ہیں |
مگر ہیں کتنے جو دیکھیں ، تو مسکراتے ہیں |
کبھی کبھی وہ اگر دیکھ بھی لیں چلمن سے |
وہ اپنا چہرہ مگر کب ہمیں دکھاتے ہیں |
حیا سے سرخ ہوں عارض جو سامنے جائیں |
پیام دیں تو کہیں بس ابھی بلاتے ہیں |
نہ جانے کیا انہیں لاحق ہوا ہے ڈر ہم سے |
ہیں راز کون سے ہم سے جو وہ چھپاتے ہیں |
پسند آئے انہیں کھیل گڈّی گُڈّے کا |
جہاں میں یوں تو بہت کھیل کھیلے جاتے ہیں |
چمن میں کلیاں چٹکتی ہیں پھول کھلتے ہیں |
مگر ہیں کتنے انہیں دیکھنے جو آتے ہیں |
نہ خُم ہے پیالہ نہ ساقی نہ مے کدہ کوئی |
نہ جانے اپنی طرف کیوں ہمیں بلاتے ہیں |
نہیں ہیں سونا انہیں شوق سے نہ سوئیں پر |
ہمیں وہ سپنوں میں آ آ کے کیوں جگاتے ہیں |
قبول کر لیں کریں درگزر خطاؤں سے |
ہم ایسے لوگ مقدّر سے ہاتھ آتے ہیں |
معلومات