بہاریں مسکرائیں تو مجھے تم یاد آتے ہو
خزائیں جب رلائیں تو مجھے تم یاد آتے ہو
ستارے استعارے ہیں تری پرنور آنکھوں کے
یہ تارے جھلملائیں تو مجھے تم یاد آتے ہو
دسمبر کے مہینے کی سلگتی سرد راتوں میں
امنگیں سر اٹھائیں تو مجھے تم یاد آتے ہو
محبت پاش نظروں سے کسے کے دیکھ لینے سے
مری آنکھیں بھر آئیں تو مجھے تم یاد آتے ہو
شبِ فرقت کے لمحوں میں وصالِ یار کا سپنا
اِن آنکھوں میں سجائیں تو مجھے تم یاد آتے ہو
مری گستاخ نظروں سے تمہارا شرمگیں ہونا
یہ باتیں یاد آئیں تو مجھے تم یاد آتے ہو
تلاشِ آب و دانہ میں گھروں سے جو نکلتے ہیں
وہ پنچھی لوٹ آئیں تو مجھے تم یاد آتے ہو
مرے ویران آنگن میں مری دہلیز پہ آ کے
ہوائیں در بجائیں تو مجھے تم یاد آتے ہو
جو اپنوں سے جدا ہو کر کہیں پردیس کھو جائیں
انہیں جب گھر بلائیں تو مجھے تم یاد آتے ہو

442