بادیہ پَیما ہے تو بستی میں رہنا چھوڑ دے |
ہمسفر شاہیں کا ہے تو گھر بنانا چھوڑ دے |
بے سبب اُلجھا نہ کر بحرِ تلاطم خیز سے |
دوستی دریا سے رکھ گلیوں میں بہنا چھوڑدے |
ہم نفس کوئی بھی ہو اپنی محبّت سے نواز |
سب کے دل کا درد بن اپنا فسانہ چھوڑ دے |
اس کو تجھ سے پیار ہے تو غیرتِ عشّاق بن |
اس کے گھر کے آج سے چکّر لگانا چھوڑ دے |
کون ہیں تیرے اب و جد کس قبیلے سے ہے تُو |
اپنا نغمہ یاد رکھ اس کا ترانہ چھوڑ دے |
عیش و عشرت ہی نہیں ہر شے فنا ہو جائے گی |
درہم و دینار پر آنسو بہانا چھوڑ دے |
تیرے وعدوں پر مجھے جاناں نہیں ہے اعتبار |
میری دلجوئی کو یوں ٹسوے بہانا چھوڑ دے |
زندگی بھر نفرتیں کیں اب دعائیں قبر پر |
سو رہا ہوں چین سے مُردے جگانا چھوڑ دے |
یونہی گر ہوتا رہا تو مجھ کو ہے خطرہ امید |
کہہ دو گے ہر آدمی سے مسکرانا چھوڑ دے |
معلومات