لئے آزردہ دل جب میں مزارِ یار پر پہنچا
نگاہیں اشک ریزاں تھیں تھا دل بیتاب سینے میں
صدا رک رک کے آتی تھی مری مضطر سی دھڑکن سے
بنا تیرے مرے ہمدم مزہ کیا میرے جینے میں
ترے دل کش تصور سے چھلک جاتا ہے پیمانہ
پیوں کیا میں اے ساقی ! کیا بچا ہے میرے مینے میں
گریباں چاک ہو تو ہے بہت آساں رفو کرنا
بہت دشواری ہوتی ہے دلوں کے زخم سینے میں
جو کشتی ساحلِ دریا کی موجوں سے بپھر جائے
ہزاروں سال لگتے ہیں مسافر کو سفینے میں
لحد ! اس پر عیاں ہونا عروسِ شب کی مانند کہ
نہایت خوبرو ہے وہ نہاں ہے جو خزینے میں
نگاہِ عشق سے دیکھی نہیں جاتی یہ ویرانی
ہراک جانب اداسی ہے جو تیرے بن مدینے میں
اگر ہو عشق تو جانوں کہ آدابِ وفا کیا ہے
بہت سے راز مضمر ہیں محبت کے دفینے میں
کسی تصویر گر کی یہ کرم فرمائی ہے خاتم !
کہ باقی نقش ہے اب تک جو یادوں کے نگینے میں
جدائی میں گزارے وقت کے بارے میں نہ پوچھو
کہ صدیاں بھی گزر جاتی ہیں ہفتے اور مہینے میں
اگر ساقی ہی مے خانے سے رشتہ توڑ لے شاہؔی
مزہ پھر کیا ہے رندوں کو صبوح و جام پینے میں

46