عجیب رت کے عجیب دن ہیں
نہ صبح روشن، نہ شام باقی
نہ خواب پیاسے، نہ نیند گہری
نہ چاند چمکے، نہ رنگ بولے
کبھی ہواؤں میں تیرتے ہیں
سراب لمحے، سرود جیسے
کبھی خلاؤں میں بجھ رہے ہیں
چراغ دل کے، سکوت جیسے
کسی کی آنکھوں میں خوں سا منظر
کسی کے لہجے میں زہر سا غم
کسی کی باتوں میں دکھ چھپا ہے
کسی کی سانسوں میں دشت سا دل
یہ وقت بھی کیا عجب تماشہ
نہ راستے ہیں، نہ کارواں ہیں
نہ کوئی منزل، نہ انتہا ہے
بس ایک چکر، بس ایک دھارا
جو عمر بھر ساتھ ساتھ بہتا
کبھی کنارے، کبھی بھنور میں
وجود بکھرا، خیال تنہا
جنوں بھی بے کیف، ہوش بھی گم
کہیں صداقت بھی خواب جیسی
کہیں فریبوں کا عکس باقی
زمین گونگی، فلک بھی چپ ہے
ضمیر گم ہے، نظر جھکی ہے
عجیب رت کے عجیب دن ہیں
نہ کوئی رستہ، نہ رہنما ہے
بس ایک سایہ سا ساتھ چلتا
جو خود بھی بے رنگ، خود بھی بے جا

50