| سفینہ پیار کا اپنے نہ جانے کیوں بھنور میں ہے |
| سہانا خواب جو دیکھا پھنسا کیوں وہ ڈگر میں ہے |
| کٹھن ہے راستہ پر حوصلہ مضبوط ہے کتنا |
| سمندر پاؤں کے نیچے ہے اور صحرا نظر میں ہے |
| کمالِ عشق کا بھی مقتضا رہتا یہی بس ہے |
| صنم کو سوز ہو تو ٹیس جو اُٹھنی جگر میں ہے |
| غریبوں سے اکڑنا، ہنس کے ملنا ہو امیروں سے |
| حسیں اک عیب ثروت مند لوگوں کے ہنر میں ہے |
| امیرِ وقت کی آمد سے سڑکیں ہو چلی سنساں |
| خموشی قبل از طوفاں سی کچھ چھائی نگر میں ہے |
| تذبذب میں پڑے ہیں وصل کا پیغام آنے سے |
| مگر رُومال بتلائے صداقت ہی خبر میں ہے |
| سعادت مند ناصؔر بندہ کہلانے کے ہے قابل |
| بقاءِ دین کی خاطر مسلسل جو سفر میں ہے |
معلومات